کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں
مسئلہ یہ ہیکہ ہماری مارکیٹ میں ہم نے BC یعنی کمیٹی ڈال رکھی ہے نمبر کمیٹی کا پورا ہونے پر قرعہ ڈالا اور ایک ساتھی کا نکل آیا، دوسرے ساتھی کو ضرورت ہے وہ کمیٹی والے کو کہتے ہیں کہ آپ مٹھائی کے طور پر دو ہزار روپے لے لے اور BC کمیٹی مجھے دے دے۔
پوچھنا یہ ہے کہ شریعت کے لحاظ سے یہ مٹھائی کے روپے لینا درست ہے یا نہیں؟
*الجــواب حــامدًا و مصــلیًا*
مروجہ کمیٹی کی بنیاد باہمی تعاون و تناصر پر ہے، اور اس میں جمع کرائی جانے والی قسطوں کی شرعی حیثیت قرض کی ہے، لہٰذا اس میں قرض والی ساری شرائط کو مد نظر رکھنا ضروی ہے، اور وہ شرائط یہ ہیں:
شرط نمبر1: کمیٹی کے تمام شرکاء (Members) برابر رقم جمع کرائیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی شریک زیادہ رقم دے اور کوئی شریک کم دے، مثلاََ بعض کمیٹیوں میں یہ طریقہ ہوتا ہے کہ جس کی کمیٹی نکل جاتی ہے، اس کی باقی قسطیں معاف ہوجاتی ہیں، اگر اس طرح کی کوئی کمیٹی ہو، تو وہ حرام اور ناجائز ہے، کیوں کہ یہ قرض پر مشروط نفع ہے، جو کہ سود ہے۔
گویا کمیٹی کے جائز ہونے میں یہ بنیادی شرط ہے کہ تمام شرکاء قسطوں کی مد میں برابر رقم جمع کرائیں۔
شرط نمبر2: تمام شرکاء کو کمیٹی نکلتے وقت برابر اور پوری رقم دی جائے، ایسا نہ ہو کہ کسی کو زیادہ رقم ملے اور کسی کو کم ملے۔
شرط نمبر3: کمیٹی بولی لگا کر فروخت نہ کی جائے، البتہ قرعہ اندازی کے ذریعے نمبر متعین کیے جاسکتے ہیں۔
شرط نمبر4: قرضہ میں ایک ضابطہ یہ بھی ہے کہ قرضہ دینے والے کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنی قرض دی ہوئی رقم کا مطالبہ کر لے، اگرچہ قرض کی واپسی کے لیے ایک مدت متعین کر لی ہو، لہذا کمیٹی کے ممبران کو بھی کسی بھی وقت اپنی دی ہوئی رقم واپس لینے کا پورا حق حاصل ہو، یہ جبر نہ ہو کہ ہر فرد آخر تک شریک رہےگا، اور الگ ہونے پر کوئی جرمانہ وغیرہ نہ بھی لیا جائے۔
اگر ذکر کردہ کسی بھی شرط کی خلاف ورزی پائی جائے تو اس صورت میں کمیٹی ڈالنا ناجائز ہے۔
(2) سوال میں ذکر کردہ صورت جائز نہیں ہے، لہٰذا رقم دے کر کوئی ممبر دوسرے سے اس کا نمبر نہیں خرید سکتا، اس لیے کہ قرعہ اندازی سے جو نمبر متعین کیے جاتے ہیں، وہ شرعا لازم نہیں ہوتے، اس لیے کہ قرعہ اندازی کے نتیجے میں جس کا نمبر نکلے، وہ اس کا "شرعی حق" نہیں ہوتا، کیونکہ قرعہ حجتِ ملزمہ نہیں ہے، لہٰذا اس کے عوض وہ کسی سے کوئی رقم وصول نہیں کرسکتا۔
نیز عوض کے اندر ایک فرد کی جانب سے اضافی رقم کا دیا جانا لازم آتا ہے، جو کہ پہلی شرط کے خلاف ہے، البتہ اگر بھائی چارے کے طور پر کوئی فرد اپنا نمبر کسی اور کو دینا چاہے، اور اس کے عوض کوئی رقم نہ لے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔
پس صورتِ مسئولہ میں کمیٹی والے(منتظمین) کا مٹھائ کے طور پر کمیٹی ممبر سے دو ہزار(2000) روپے لینا جائز نہیں ہے اس میں رشوت اور سود کا شائبہ ہے اور ظلم ہے۔
فی القرآن الكريم: (المائدة، الایۃ: 2]
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِo
و قولہ تعالی: (آل عمران، الایۃ: 130]
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً۔۔۔۔الخ
وفی فقہ البیوع: (661/2)
الربا الذي حرمه القران الكريم عرفه الإمام أبوبكر الجصاص رحمه الله تعالى بقوله: "هو القرض المشروط فيه الأجل وزيادة مال على المستقرض" وهذا النوع من الربا يسمى "ربا القرض" أو "ربا القران" لكونه حرمه القران الكريم.
وفی الدر المختار: (158/5)
"(ولزم تأجيل كل دين) إن قبل المديون (إلا) ... (القرض)".
وفی شرح مشكل الآثار للطحاوی: (217/2)
«فإن قال قائل: فكيف تكون القرعة منسوخة، وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعلها بين نسائه عند إرادته السفر بإحداهن .... فكان جوابنا له في ذلك أن الذي ذكرنا من القرعة المنسوخة هي القرعة المستعملة كانت في الأحكام بها حتى يلزم لزوم ما يحكم فيه بما سواها من البينات وغيرها، وأما هذا الذي ذكرت فلم يستعمل على سبيل الحكم به، وإنما استعمل على تطييب النفس ونفي الظنون، لا لما سوى ذلك إلا أن يرى أنه كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم أن يسافر بغير أحد من نسائه، وأنه لما كان له أن يسافر دونهن أنه قد كان له أن يسافر دون بعضهن. وفي ذلك ما قد دل على أن إقراعه كان بينهن لما كان يقرع بينهن من أجله لم يكن على حكم بينهن، ولا عليهن، ولا لهن وأنه إنما كان لتطييب أنفسهن، وأن لا يقع في قلوب بعضهن ميل منه إلى من يسافر بها منهن دون بقيتهن، وذلك الأقسام لو عدلت الأجزاء , ثم أعطي كل ذي جزء من أجزائها جزءا من تلك الأجزاء بغير قرعة على ذلك كان ذلك جائزا مستقيما، فدل ذلك أن القرعة إنما استعملت في ذلك لإنفاء الظنون بها عن من يتولى القسمة بين أهلها بميل إلى أحد منهم، أو بما سوى ذلك وليس في شيء مما ذكرنا من السفر بالنساء، ومن الأقسام المستعملة القرعة فيها لما استعملت فيها قضاء بقرعة، فكذلك نقول ما كان من أمثال هذين الجنسين مما لا يقع فيه بالقرعة حكم إنما يقع فيه تطييب الأنفس وإنفاء الظنون فلا بأس باستعمال القرعة فيه وما كان من سوى ذلك مما يقع فيه القضاء، والأحكام فلا وجه؛ لاستعمالها فيه لما قد حكيناه في مثلها عن علي... إلخ»
وفی فتح القدير لابن الهمام: (493/4)
«..... ولذلك أجمع على عدم الإقراع عند تعارض البينتين للعمل بأحدهما، وعلى عدمها أيضا عند تعارض الخبرين، ونحن لا ننفي شرعية القرعة في الجملة بل نثبتها شرعا لتطييب القلوب ودفع الأحقاد والضغائن كما فعل - عليه الصلاة والسلام - للسفر بنسائه، فإنه لما كان سفره بكل من شاء منهن جائزا إلا أنه ربما يتسارع الضغائن إلى من يخصها من بينهن فكان الإقراع لتطييب قلوبهن، وكذا إقراع القاضي في الأنصباء المستحقة والبداية بتحليف أحد المتحالفين إنما هو لدفع ما ذكرنا من تهمة الميل. والحاصل أنها إنما تستعمل في المواضع التي يجوز تركها فيها لما ذكرنا من المعنى، ومنه استهام زكريا - عليه السلام - معهم على كفالة مريم - عليها السلام - كان لذلك، وإلا فهو كان أحق بكفالتها لأن خالتها كانت تحته، والله أعلم.
و فیہ ایضاً: (513/10)
«ومثاله أن القرعة ليست بحجة، ويجوز استعمالها في تعيين الأنصباء لدفع التهمة عن القاضي فصلحت دافعة لا موجبة»
وفی حاشية بذل المجهود للأستاذ الدكتور تقي الدين الندوي: (323/8)
«أما القرعة فمن أهم المسائل المختلفة، يتفرع عليها أحكام عديدة، قال أحمد: جاء فيها خمس سُنَن: أقرع بين نسائه، وأقرع في ستة مملوكين، وقال لرجلين: "استهما"، و"مثل القائم على حدود الله والمداهن فيها كقوم استهموا على سفينة"، وقال: "لو يعلم الناس ما في النداء والصف الأول لاستهموا"، وفي قصة كفن حمزة: "أقْرَعْنا ثم كفنَّا كل واحد في ثوب"، كذا في "المغني". قلت: وترجم لها البخاري "باب الاستهام في الأذان"، "باب هل يقرع في القسمة؟ "، "باب القرعة بين النساء"، "باب القرعة في المشكلات"، "باب إذا تسارع قوم في اليمين"، والحنفية أنكروا كون القرعة حجة شرعية كما قرره ابن الهمام في "كتاب العتق"، والطحاوي في "مشكله"، والجصاص مختصرًا. والزيلعي في "نصب الراية".
کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144010200306
کذا فی فتاویٰ دار العلوم دیوبند: 374-80/D=5/1437
فتاویٰ محمودیہ22/39
0 Comments