*نمازِ تہجد کی نیت کا طریقہ اور تہجد کی نماز کا وقت*
سوال
تہجد کی نماز کی نیت کیسے کرتے ہیں اور یہ فجر کی نماز سے کتنا پہلے ادا کی جاتی ہے؟
جواب
1: نماز تہجد کی ہو یا کوئی بھی، اس کی نیت کے لیے زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، بس دل میں یہ نیت کافی ہے کہ میں تہجد کی نماز ادا کر رہاہوں، اور الفاظ ادا کرنے ہوں تو تہجد کی نیت اس طرح کرے: " نَوَیتُ أَن أُصَلِّيَ رَكْعَتَيْ صَلَاةِ التَّهَجُّدِ سُنَّةَ النَّبِیِّ ﷺ، یا اپنی زبان میں یوں نیت کرے کہ " میں دوو رکعت تہجد کی نماز پڑھ رہا ہوں" اللہ اکبر،نیز اگر رات کو صرف نفل نماز کی نیت سے نماز پڑھےگا، تب بھی تہجد کی نماز ہوجائےگی۔
2: تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے پہلے پہلے تک رہتا ہے، بہتر یہ ہے کہ آدھی رات گزرنے کے بعد تہجد کی نماز پڑھی جائے، باقی عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے کسی بھی وقت تہجد کی نماز پڑھنے سے تہجد کی نماز ہوجائےگی، نیز تہجد کے لیے سونا شرط نہیں ہے، البتہ رات کے آخری پہر میں پڑھنا افضل ہے۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ’’معارف القرآن ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’لفظ تہجد’’ہجود‘‘سے مشتق ہے،اوریہ لفظ دومتضاد معنی کے لیے استعمال ہوتاہے،اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اورجاگنے بیدارہونے کے بھی ......اسی رات کی نمازکواصطلاح شرع میں نمازتہجدکہاجاتاہے،اورعموماً اس کامفہوم یہ لیاگیاہے کہ کچھ دیرسوکراٹھنے کے بعدجونمازپڑھی جائے وہ نمازتہجدہے،لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت (ومن اللیل فتهجدبه)کااتناہے کہ رات کے کچھ حصہ میں نمازکے لیے سونے کوترک کردو،اوریہ مفہوم جس طرح کچھ دیرسونے کے بعد جاگ کرنمازپڑھنے پرصادق آتاہے اسی طرح شروع ہی میں نمازکے لیے نیندکومؤخرکرکے نمازپڑھنے پربھی صادق ہے،اس لیے نمازتہجدکے لیے پہلے نیندہونے کی شرط قرآن کامدلول نہیں،پھربعض روایات حدیث سے بھی تہجدکے اسی عام معنی پراستدلال کیاہے۔امام ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے نمازتہجدکی جوتعریف نقل کی ہے وہ بھی اسی عموم پرشاہدہے ،اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’حسن بصری فرماتے ہیں کہ نمازتہجد ہراس نمازپرصادق ہے جوعشاء کے بعدپڑھی جائے البتہ تعامل کی وجہ سے اس کوکچھ نیندکے بعد پرمحمول کیاجائے گا‘‘۔
اس کاحاصل یہ ہے کہ نمازتہجد کے اصل مفہوم میں بعدم النوم ہوناشرط نہیں،اورالفاظ قرآن میں بھی یہ شرط موجودنہیں ،لیکن عموماً تعامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کا یہی رہاہے کہ نمازآخررات میں بیدارہوکرپڑھتے تھے اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی‘‘۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وروى الطبراني مرفوعا «لا بد من صلاة الليل ولو حلب شاة، وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل» وهذا يفيد أن هذه السنة تحصل بالتنفل بعد صلاة العشاء قبل النوم. اهـ."
(کتاب الصلوۃ، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:24، ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
0 Comments