سمندر کی رات اور قرآن
```یہ ڈاکٹر غرینیہ تھے جو پیرس کے ایک کامیاب طبیب ہونے کے علاوہ فرانسیسی حکومت کے رکن تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ حکومت سے الگ ہو گئے اور پیرس چھوڑ کر فرانس کے ایک چھوٹے گاؤں میں سکونت اختیار کرلی اور خدمت خلق میں مصروف ہو گئے۔ محمود مصری نے ان سے ان کے مکان پر مل کر ان کے اسلام قبول کرنے کا سبب دریافت کیا۔```
قرآن کی ایک آیت، ڈاکٹر نے جواب دیا ۔کیا آپ نے کسی مسلمان عالم سے قرآن پڑھا ہے، نہیں میری اب تک کسی مسلمان عالم سے ملاقات نہیں ہوئی۔ پھر یہ واقعہ کیوں کر پیش آیا۔ ڈاکٹر غرینیہ نے جواب دیا۔ مجھے اکثر سمندری سفروں میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے، میری زندگی کا بڑا حصہ پانی اور آسمان کے درمیان بسر ہوا ہے۔ اسی طرح ایک سفر میں ایک بار مجھے قرآن کا فرانسیسی ترجمہ ملا۔ یہ موسیو قاری کا ترجمہ تھا، میں نے اسے کھولا تو سورہ نور کی ایک آیت سامنے تھی جس میں ایک سمندری نظارے کی کیفیت بیان کی گئی۔
ترجمہ: جیسے اندھیرا گہرے سمندر میں، اس کا ڈھانپ لیا ہو موج نے، لہر کے اوپر لہر، اس کے اوپر بادل۔ اندھیرے پر اندھیرا اس حالت میں ایک شخص اپنا ہاتھ نکالے تو توقع نہیں کہ وہ اس کو دیکھ سکے اور جس کو اللہ نور نہ دے اس کے لیے کوئی روشنی نہیں۔سورة النور ٤٠
میں نے اس آیت کو نہایت دلچسپی سے پڑھا، جس میں سمندری نظارے کی کیفیت بیان کی گئی تھی، جب میں نے آیت پڑھی تو میں تمثیل کی عمدگی اور انداز بیاں کی واقفیت سے بے حد متاثر ہوا، میں نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ایک ایسے شخص ہوں گے جن کے رات اور دن میری طرح سمندری سفروں میں گزرے ہوں گے، پھر بھی مجھے حیرت تھی کہ انہوں نے گمراہیوں کی آوارگیاور ان کی جدوجہد کی ببے حاصلی کو کیسے مختصر الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ گویا کہ وہ رات کی سیاہی، بادلوں کی تاریکی اور موجوں کے طوفان میں ایک جہاز پر کھڑے ہیں اور ایک ڈوبتے ہوئے شخص کی بدحواسی کو دیکھ رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ سمندری خطرات کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر بھی اتنے کم الفاظ میں اتنے کامیاب طور پر خطرات بحر کی تصویر کشی نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی زندگی بھر سمندر کا سفر نہیں کیا، اس انکشاف کے بعد میرا دل روشن ہو گیا۔ میں نے سمجھا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہیں ہے بلکہ اس خدا کی آواز ہے جو رات کی تاریکی میں ہر ڈوبنے والے کے ہی حوصلہ کو دیکھ رہا ہوتا ہے، اس کے بعد میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ میں مسلمان ہو جاؤں ۔
0 Comments