Moste Usfull Site

بچوں میں فکر مندی اور گھبراہٹ یا ’اینگزائیٹی‘: اس پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے؟* ⛷️

 ⛷️ *بچوں میں فکر مندی اور گھبراہٹ یا ’اینگزائیٹی‘: اس پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے؟* ⛷️



*اس پوسٹ کو صدقہ جاریہ سمجھ کر اپنے دوستوں,رشتہ داروں اور آفس کولیگز میں ذیادہ سے ذیادہ شئر کیجیئے شاید کسی کا فائدہ ہوجائے*


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ


ایک بالغ شخص کی طرح ہر بچہ بعض اوقات کسی نہ کسی وجہ سے فکر مند ہوتا ہے اور گھبراہٹ یعنی ’اینگزائیٹی‘ محسوس کرتا ہے۔ لیکن کچھ بچوں میں فکرمندی ایسے اثرات پیدا کرتی ہے کہ ان کا دل اُن باتوں میں نہیں لگتا جن میں وہ عموماً خوشی محسوس کرتے ہیں۔


لیکن برطانیہ کی ریڈنگ یونیورسٹی کی پروفیسر کیتھی کریسویل کی تازہ ترین ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کچھ ایسی ترکیبیں یا نسخے ہیں، جن کو استعمال کرنے سے والدین بچوں میں ’اینگزائیٹی‘ کی اس تکلیف کو کم کر سکتے ہیں۔


پروفیسر کریسویل جو بچوں میں ’اینگزائیٹی‘ پر قابو پانے کے بارے میں کئی کتابوں کی مصنف ہیں، نے اپنی ریسرچ کی بنیاد پر چند ایک ترکیبیں ترتیب دی ہیں جو والدین اپنے بچوں کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔


*1- یہ نہ کہیں ’گھبراؤ مت، یہ تو ہوگا‘*

چار برس سے آٹھ برس کی عمر کے بچے روحوں، جن یا دیو یا جانوروں سے گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں۔


جبکہ اس سے زیادہ عمر کے بچے حقیقی طور پر لیکن بہت ہی کم لگنے والی چوٹوں کے خوف میں مبتلا ہو سکتے ہیں، جیسے قتل، دہشت گردی یا ایٹمی جنگ۔


اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے بچے کی کتنی عمر ہے، آپ اس کے خوف یا فکر مندی کو مسترد نہ کریں۔ بچے سے صرف یہ کہہ دینا کہ اُس کا جو خوف ہے وہ صحیح نہیں ہے، ویسا ہونے والا نہیں ہے یا یہ کہ بچہ بے وقوف ہے، اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے۔ اس کے بجائے یہ تسلیم کریں کہ بچہ جس خوف کو محسوس کر رہا ہے وہ درست ہے۔



*2- بچوں کے خوف یا گھبراہٹ کو سرے سے مسترد نہ کریں*

بچوں سے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ جو خوف وہ محسوس کر رہے ہیں ویسا کبھی بھی نہیں ہوگا، اس سے بچے کو فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اگر اس کے خوف کے احساس کو درست تسلیم کیا جائے تو اُس سے بچے کو مدد ملے گی۔



*3- بچوں کی زندگی ان کی فکرمندی کے ارد گرد آراستہ نہ کریں۔ اس سے آپ بچے کو خود سے سیکھنے کے موقع سے محروم کردیں گے*

اگر آپ کا بچہ کتوں سے ڈرتا ہے اور آپ گلی میں کسی کتے کو دیکھ کر بچے کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنا رستہ تبدیل کر لیتے ہیں تو آپ ایک لحاظ سے بچے کو یہ پیغام دیں گے کہ اُس کا خوف درست ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ بچے کو مجبور کریں کہ وہ اُس بات کا سامنا کرے جس سے وہ بہت زیادہ خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس کے بجائے اس کی مدد کریں کہ وہ آہستہ آہستہ اس خوف سے نبردآزما ہونا سیکھے۔



*4- اگر بچے کی اینگزائیٹی زیادہ بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے تو پھر غور سے دیکھیں کہ وہ کونسی صورت ہوتی ہے جب وہ زیادہ پریشان ہوتا ہے*

اس ترکیب کے پیچھے اصل میں آئیڈیا یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے خوف کی کیفیت کو سمجھیں، نہ کہ ان سے پوچھیں کہ آپ خوف زدہ تو محسوس نہیں کر رہے۔


*5- بچوں سے کھلے انداز میں سوالات کریں*

والدین کی بڑی خواہش ہوتی ہے اور انھیں اچھا لگتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو اس کے مسئلے کا حل بتا دیں۔ لیکن اس کے بجائے بہتر یہ ہو گا کہ آپ بچے کی بات کو سنیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے خوف یا فکرمندی، جس کی وجہ سے اُس میں اینگزائٹی پیدا ہوتی ہے، کو اچھی طری بلا جھجک بیان کرے۔ ممکن ہے کہ اس کا خوف غلط فہمی کی وجہ سے ہو۔


’جب میں خود چھوٹی تھی تو میں تیز رفتار ٹرین میں سفر کرنے سے خوف محسوس کرتی تھی۔ جب میں باہر سے ایک تیز رفتار ٹرین کو گزرتے دیکھتی تو یہ بہت شور مچاتے ہوئے میرے سامنے سے گزرجاتی تھی۔ اس وقت میں محسوس کرتی تھی کہ جس طرح تیز رفتار ٹرین کے گزرنے سے باہر کھڑے لوگ اس کا شور محسوس کرتے ہیں، شاید اُسی طرح ٹرین کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ بھی محسوس کرتے ہیں۔ جب تک آپ یہ نہیں سمجھیں گے کہ آپ کے بچے کے خوف کی وجہ کیا ہے آپ اُس وقت تک اُس کی مدد نہیں کرسکیں گے۔‘



*6- بجائے یہ کہ آپ بچے سے یہ کہیں کہ اس کا خوف بلا وجہ ہے، اُن سے اس طرح کے سوالات کریں کہ جن سے وہ یہ محسوس کرے کہ شاید اس کی پریشانی کی وجہ حقیقی نہیں*

مثال کے طور پر آپ بچے سے یہ پوچھیں کہ اس کے ماضی میں ایسے کیا واقعات پیش آئے ہیں جن کی وجہ سے وہ یہ سوچتا ہے کہ اس کا خوف حقیقت میں بدل سکتا ہے۔ بچے کو جس چیز کے ہونے کا خوف ہے کیا وہ واقعی حقیقت میں ہو سکتا ہے یا اس کا خوف ہے، مختلف قسم کے سوالات آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ کرنے ہوں گے۔ پہلے پہل تو آسان سے سوالات کریں پھر اس طرح کے سوالات کریں کہ اگر ایسا ہوا تو پھر کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔


*7- بچے کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنے خوف یا فکرمندی سے نبردآزما ہونے کی ذہنی طور پر بہتر حکمتِ عملی خود سے بنا سکے*


اگر کسی ڈرامے یا فلم کو دیکھتے ہوئے کوئی خوف زدہ کرنے والا منظر آئے تو آپ بچے سے پوچھیں کہ اس خطرے سے کس قسم کی بد ترین بات یا حادثہ ہو سکتا ہے (وہ اس منظر کے تمام مکالمے بھول جاتے ہیں، روتے ہیں اور دوسرے سامعین ان پر ہنستے ہیں)۔


پھر آپ ان سے یہ بھی پوچھیں اس منظر میں بہترین بات کیا ہو سکتی ہے (یہ کہ ان کی ایکٹنگ اتنی اچھی تھی کہ اس کی وجہ سے کسی ایک کو ہالی وڈ کی کسی فلم میں اداکاری کا موقع مل سکتا ہے)۔ امکان اس بات کا ہے کہ بچہ اپنے آپ کو ان دو انتہائی باتوں کے درمیان کہیں پائے گا۔


*8- ایسی منصوبہ بندی کریں* کہ بچے کے خوف میں آہستہ آہستہ آنے والی تبدیلی کو والدین ٹیسٹ کر سکیں

ریڈنگ یونیورسٹی سے وابستہ والدین کے ایک جوڑے کو یہ سکھایا گیا کہ وہ اپنے بچے کو دس اقدامات ایسے سکھائیں کہ وہ جس بات سے خوف زدہ ہوتا ہے اگر اس بات کا اُسے سامنا کرنا پڑ جائے تو اُس سے کس طرح نمٹے گا۔ اس طرح بات کرنے سے بچے میں اعتماد پیدا ہوگا۔


*9- بچے کو اقدامات لینے اور ہر کامیابی پر انعام دیں، تعریف کریں*

اس طرح والدین بچے کی کوششوں کو سراہ رہے ہوں گے اور پیچیدہ حالات سے نمٹنے میں اس کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہوں گے۔



*10- بعض اوقات فکرمند ہونا* یا گھبرانا معمول کی بات ہوتی ہے، لیکن اگر ان کی گھبراہٹ ان کو کافی پریشان کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ روز مرّہ کا کام بھی نہیں کرسکتے ہیں تو پھر مشاورت کرنا بہتر ہو گا

ایسی صورت میں کتابیں پڑھیں جن میں ان مسائل کے بارے میں بہتر حکمت عملی بیان کی گئی ہو یا اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ اور اگر ضروری محسوس کریں تو ڈاکٹر سے ’کوگنیٹو بی ہیویئرل تھیراپی‘ (cognitive behavioural therapy) کے بارے میں دریافت کریں۔



*11- ایک بات یاد رکھیں* کہ آپ بچے کی زندگی سے ہر قسم کا خوف یا ہر قسم کی گھبراہٹ ختم نہیں کرسکتے ہیں


آپ کا اصل ہدف یہ ہے کہ آپ بچے کو زندگی کی بے یقینیوں سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کریں، بجائے یہ کہ آپ خوف محسوس کرنے کی صلاحیت کو سرے سے ہی ختم کردیں۔


اپنے جذبات و احساسات کو منظم اور مربوط کرنے کی صلاحیت سیکھنا ہی تعلیم حاصل کرنے کا دوسرا نام ہے۔ جب ہم سنِ بلوغت میں پہنچتے ہیں تو پھر ہم معاملات کو ان کے سیاق و سباق کے مطابق سمجھنے کی صلاحیت بہتر طور پر حاصل کر چکے ہوتے ہیں اور ہم یہ سمجھ چکے ہوتے ہیں کہ ہم اپنے مسائل سے کس طرح نمٹ سکتے ہیں۔

 

نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔

التماسِ دعا

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ



Post a Comment

0 Comments