*عیدین کے مواقع پر والدین سے ملنے جانا بہت ضروری ہے چاہے آپ عمر کے جس مرضی سٹیج پر پہنچ جاٸیں*
ویسے تو میرے پڑوسی انکل حنیف صاحب کم گو اور درمیانی طبیعت کے ہیں، بہت زیادہ ہنستے یا غمگین نظر نہیں آتے لیکن عید کے دنوں میں انہیں میں بڑا خوش خوش دیکھا۔
کبھی انہیں بازار سے پھلوں کے تھیلے، گوشت کے پیکٹ توکبھی کوک کے ”Pet“ اٹھاۓ خوشی خوشی گھر آتے جاتے دیکھا۔
مجھ سے بھی انہوں نے خلاف معمول بات چیت بھی کی حال چال بھی پوچھا۔
میں چونکہ انہیں سارا سال خاموش،سنجیدہ اور ایک ہی روٹین میں شب و روز گزارتے دیکھتاہوں اسلیے انکے مزاج کی یہ خوشگوار تبدیل بڑی حیرت کاباعث تھی۔
پھر میں بھی عید کے مہمانوں اوردیگر مصروفیات میں کھوگیا۔
کل عصر کی نماز کے بعد میرا اچانک ان سے آمنا سامنا ہوا۔ میں نے سلام کیا، انہوں نے میری طرف دیکھے بغیر نحیف سی آواز میں جواب دیا اور آگے بڑھ گٸے۔
وہی افسردگی، بے چینی اور بے خیالی کی کیفیت ان پر طاری تھی۔ ان کے چہرے پر شدید کرب و پریشانی کے آثار ظاہر تھے۔ وہ خیالوں میں گم آہستہ قدموں سے چلتے جارہے تھے۔
مجھے بہت حیرت ہوٸی۔ مغرب کی نماز کے بعد وہ پارک میں چہل قدمی کرتے ہیں۔ میں انکے پاس چلا گیا۔
ان سے اپنی حیرت کا اظہار کیا۔ پہلے تووہ خاموش رہے پھر بڑے کربناک لہجے میں بولے ”عید پر میرے بیٹے عید گزارنے آتے ہیں، چند دن رہتے ہیں میں انہیں دیکھ کر، اپنے پوتے پوتیوں کو دیکھ کرجوان ہوجاتاہوں، دل ہی دل میں ان دنوں کے لمبا ہونے کی دعاٸیں کرتا رہتاہوں، لیکن آخر وہ اپنے اپنے کام پر اپنے اپنے شہروں میں لوٹ جاتے ہیں، میں پھر سے بوڑھا ہوجاتاہوں، بچوں کی جداٸی اچھے اچھوں کو بوڑھا کردیتی ہے“
وہ بولے جارہے تھے اور آنسوٶں انکی سفید داڑھی کوبھگو رہے تھے۔
میں انہیں تسلی دیتارہاپھر گھر لوٹ آیا۔
احباب!
ہم سب کو بالخوص وہ دوست جو کام کے سلسلے میں آباٸی گھروں سے دور ہیں وقتاً فوقتاً اپنے والدین سے ملتے رہنا چاہیے، ان سے باتیں کرنا چاہیے، انکی تنہاٸی کا ازالہ کرنا چاہیے۔
ٹھیک ہے والدین اپنا آباٸی گھر نہیں چھوڑنا چاہتے لیکن اتنا حق تو رکھتے ہیں کہ آپ ہر ممکن کوشش کرکے ان سے رابطے میں رہیں، ان سے ملنے آتے رہیں۔
سوچیے!!!!!!، بہت ضروری
*صدقہ جاریہ کی نیت سے تحریر اپنے پیاروں کے ساتھ شٸیر کیجۓ*
0 Comments