*رب سے جڑنے کا سفر*
#قسط نمبر 5
فاطمہ شہر کے اس علاقے میں پہلی مرتبہ آئی تھی۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں مڈل کلاس فیملیز رہتی تھیں، ایک ہی دیوار کے ساتھ جڑے گھروں میں رہنے والے آپس میں بھی جڑ کر رہنا جانتے تھے۔ فاطمہ قرة العین کی والدہ سے ملنے کے بعد گھر سے نکل آئی تھی۔ گلی میں بچے آپس میں کھیل رہے تھے۔ اسی گلی کے کونے پر چاچا سلیم گاڑی میں اسکا انتظار کر رہے تھے۔
فاطمہ اپنے خیالوں میں گم چلے جا رہی تھی کہ اچانک آس پاس کھیلنے والے بچوں نے اسے سلام کیا۔ وہ حیرت سے متوجہ ہوئی، بچے سلام کرنے کے بعد دوبارہ سے کھیل میں مصروف ہو گئے تھے۔ اس نے بھی جواب دیا تو ایک بچی بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
"آپی آپی!! آپ باجی کی دوست ہیں؟"
وہ ننھی سی بچی پرجوش انداز میں پوچھ رہی تھی۔
"باجی کون؟؟؟"
فاطمہ نے نیچے جھکتے ہوئے پیار سے اسکا گال کھینچتے ہوئے کہا۔
"عینی باجی۔۔ آپ انکے گھر سے آ رہی ہیں نا۔۔"
بچی نے قرة العین کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فاطمہ کو بتایا۔
"اوہ!! وہ باجی۔۔ جی جی میں ان کی دوست ہوں۔"
فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ بچے قرة العین کے پاس قرآن پڑھتے ہیں، اسی لیے انھوں نے اسے سلام کیا تھا۔ اُسے ہی نہیں بلکہ وہ ہر آنے جانے والے کو سلام کر رہے تھے، بالکل قرة العین کی طرح۔ یونیورسٹی میں وہ بھی ایسے ہی خود آگے بڑھ بڑھ کر سب کو سلام کرتی تھی۔ اسکے سٹوڈنٹس بھی اسی جیسے تھے۔
بچی دوبارہ سے اپنے کھیل میں مصروف ہو چکی تھی۔فاطمہ گلی سے نکل کر گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی اور بیٹھتے ہی چاچا سلیم کو سلام کیا۔
چاچا سلیم انکے خاندان کے بہت پرانے ڈرائیور تھے، انکی پوری فیملی فاطمہ کے گھر میں سرونٹ کوارٹرز میں رہتی تھی اور انکے گھر کا سارا کام کاج کرتی تھی۔
"وعلیکم السلام فاطمہ بیٹی۔"
چاچا سلیم حیرت سے فاطمہ کو جواب دیتے ہوئے اسکی طرف دیکھ رہے تھے کیونکہ اسکا ایسے سلام کرنا انکے لیے بالکل نیا تھا۔
"خیریت سے اس جگہ آئی ہو بیٹی؟ پہلے تو کبھی نہیں آئی؟"
"جی چاچا۔۔ بس یہاں ایک دوست رہتی ہے، اس سے ملنے آئی تھی۔"
فاطمہ یہ کہہ کر قرة العین کا کاغذ پر لکھا ہوا نمبر اپنے موبائل میں سیو کرنے لگی۔
چاچا سلیم گاڑی گلیوں سے نکال کر مین روڈ پر لے آئے۔ دور دور سے مغرب کی اذانوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"دیکھو فاطمہ، میں تمھیں دوبارہ کہہ رہی ہوں تم اسکے بارے میں سوچنا چھوڑ دو۔ وہ بندہ صرف ٹائم پاس کر رہا ہے۔ تمھیں حقیقت کیوں نہیں نظر آتی؟"
علینہ اس بار کچھ غصے میں آ گئی تھی۔ آنا بھی چاہئیے تھا، کتنے ماہ ہو گئے تھے اسے فاطمہ کو سمجھاتے سمجھاتے کہ سفیان سے بچ کر رہے، وہ صرف اسکے ساتھ ٹائم پاس کر رہا ہے۔ علینہ کوئی خاص مذہبی خاندان سے تعلق نہیں رکھتی تھی مگر اسکا کردار بہت مضبوط تھا۔ اسے اپنی لمٹس کا بخوبی اندازہ تھا۔ اسے اپنے والدین کی عزت کا بھی خیال تھا کہ اگر اسکے والدین اتنی محنت اور امیدوں سے اسے اس مہنگی یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں تو اسے بدلے میں انکو دھوکہ نہیں دینا، اسے اپنے نفس کے لیے اپنوں کو اذیت نہیں دینی۔ اگرچہ فتنہ ہر طرف تھا، یونیورسٹی کا ماحول بے حیائی سے بھرپور تھا۔ ہر طرف لڑکے لڑکیاں کپل کی صورت میں نظر آتے تھے، ایسا لگتا تھا وہاں پڑھائی سے زیادہ ایسی دوستیاں اہم تھیں۔
علینہ فاطمہ سے دو سال بڑی تھی۔ اسکی تربیت بھی ایسی ہوئی تھی کہ وہ سمجھدار تھی۔ وہ مزید فاطمہ کی اذیت کو نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ آج بھی یونیورسٹی کے لان میں بیٹھی وہ اسے سمجھا رہی تھی۔
"میں کیا کروں علینہ؟؟ میں خود بھی تھک چکی ہوں۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے مجھے کسی چیز نے اندر سے جکڑ لیا ہو، اس اذیت نے مجھے بے چین کر کے رکھا ہوا ہے۔"
ہمیشہ کی طرح فاطمہ آج بھی رو دی تھی۔ مگر آج وہ بہت تھکی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ علینہ جانتی تھی کہ وہ اس سب سے جان چھڑانا چاہتی ہے، مگر اسے رستہ نہیں مل رہا۔ اسے فاطمہ پر بہت ترس آ رہا تھا۔
"علینہ میں نے اسے بہت سی لڑکیوں کے ساتھ دیکھا ہے۔ میں جانتی ہوں وہ میرے ساتھ صرف ٹائم پاس کر رہا ہے۔ میں نے کوشش بھی کی ہے خود کو دور رکھنے کی، میں نے اسکا نمبر اسکا اکاونٹ سب کچھ بلاک کر دیا، مگر میں اس دل کا کیا کروں؟ اسکے ہاتھوں پھر سے مجبور ہو جاتی ہوں۔"
بتاتے بتاتے فاطمہ دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر رو دی تھی۔اگرچہ اسکے والدین کی طرف سے اس پر کوئی ایسی پابندی نہ تھی مگر وہ کہتے ہیں نا کہ جب ضمیر زندہ ہو تو انسان کو برائی پر چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔ اللہ نے ہر انسان کے اندر اسکی اچھائی اور برائی الھام کر رکھی ہے۔ یہ بھی حقیقیت ہے کہ انسان کا نفس برائی کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن اگر وہ اسے روک نہ لگائے، اسکے اردگرد تقویٰ کی دیواریں کھڑی نہ کرے، تو وہ اس برائی کے جال میں پھنس جاتا ہے اور پھر اذیت اور بےچینی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
اسکا بھی یہی حال تھا۔ اس نے پہلے قدم پر ہی خود کو روک نہ لگائی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ تعلق جائز نہیں ہے، یہ وہ سراب ہے جو دور سے سہانا لگتا ہے مگر پاس جانے سے مایوسی اور اذیت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ مگر پھر بھی ہر روز سفیان سے چیٹنگ کرنا اور اسکو اپنی پکس بھیجنا اسکا معمول بن گیا تھا۔ سفیان کی طرف سے ملنے والے کمنٹس اور تعریفیں اسکے نفس کو مزید موٹا کر دیتی تھیں۔ شب و روز اسکے ایسے ہی گزر رہے تھے کہ اسکا دماغ اسی کے خیالوں میں جکڑا رہتا تھا۔ وہ گناہوں کی گہری کھائی میں گرتی ہی چلی جا رہی تھی۔ ایسے جیسے اس کھائی کی گہرائی سے اسے کوئی اپنی طرف کھینچ رہا ہو، مگر اسکے اندر بیٹھا اسکا ضمیر اسے بار بار جھنجھوڑ رہا تھا کہ گہرائی میں صرف رسوائی ہے!! ابھی وقت ہے گرنے سے پہلے خود کو چھڑوا لو۔۔جاری ہے۔۔۔ہ
_سب دوست ایک بار درودشریف پڑھ لیں_
_ایک بار درودشریف پڑھنے سے_
_ﷲ تعالیٰ دس مرتبہ رحمت فرماتے ہیں_
0 Comments