Moste Usfull Site

رب سے جڑنے کا سفر* #قسط نمبر 4

 *رب سے جڑنے کا سفر*


#قسط نمبر 4


بہت کچھ تھا جو اسکے اندر کچے دھاگوں کی مانند الجھتا جا رہا تھا، وہ مزید وہاں رکنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔


اب اسے یہاں سے جانا تھا۔۔ کسی ایسی جگہ جہاں بس وہ اپنے رب کے سامنے کھل کر رو سکے۔


"تمھارا بہت بہت شکریہ قرت، تم نہیں جانتی آج تم نے مجھے کیا دیا ہے۔۔ میں تمھارا یہ احسان کبھی نہیں چکا پاؤں گی۔"

فاطمہ نے کھڑے ہو کر آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔


قرة العین مسکراتے ہوئے اسکے گال کو تھپکتے ہوئے پیار سے بولی۔

"ارے لڑکی! یہ سب تو تمھیں اللہ نے آج اس وقت اس جگہ دینا ہی تھا، مجھے تو بس اس نے ذریعہ بنایا ہے۔ الحمدللہ کثیرا اللہ کا بے شمار احسان ہے ہم پر۔"


یہ کیسی لڑکی تھی؟ کس دنیا کی تھی؟ کیسی عاجزی تھی اس میں۔۔ فاطمہ کو اسے دیکھ کر بے انتہا رشک آ رہا تھا۔۔اسکے دل میں خواہش جاگی کہ مجھے بھی اللہ کی ایسی ہی پیاری بندی بننا ہے۔


یہ سوچتے ہوئے وہ بہتی آنکھوں سے مسکرا دی۔

اسکے بعد فاطمہ قرة العین سے اسکا نمبر لے کر اسکے گھر سے نکل آئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


فاطمہ کے جانے کے بعد قرة العین نے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے قرآن کو سینے سے لگا لیا اور مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی کھلی کھڑکی کی طرف آئی۔


اسکے کمرے کی کھڑکی گھر کے پچھلی طرف خالی پلاٹ میں کھلتی تھی، جہاں اس نے گلی کے بچوں کے ساتھ مل کر صفائی کر کے چھوٹے چھوٹے پودے اگا رکھے تھے۔ ہلکی ہلکی گھاس بھی اگ آئی تھی وہ صبح یونیورسٹی جانے سے پہلے وہاں مٹی کا پیالہ پانی سے بھر کر رکھ جاتی تھی تاکہ سارا دن جو بھی پرندہ اور جانور اس میں سے پئیے اسکے لیے وہ صدقہ لکھا جاتا رہے۔

باہر بہت سہانا موسم تھا۔ مغرب کا وقت ہونے ہی والا تھا۔ تیز ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، جس کی وجہ سے درخت کی ٹہنیاں اوپر نیچے جھول رہی تھیں، گویا اپنے خالق کی تسبیح کر رہی ہوں۔


اسے فوراً سے وہ آیت یاد آئی جس میں اللہ نے فرمایا تھا:


*"ساتوں آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں ہیں سب اسی کی تسبیح کرتے ہیں۔ اور (مخلوقات میں سے) کوئی چیز نہیں مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ بےشک وہ بردبار (اور) غفار ہے۔ "*


(سورت الاسراء: 44)


اس عرش پر مستوی رب کا کلام حق تھا۔۔ سچ تھا۔۔ مگر بہت کم لوگ ہی تھے جو اسکے کلام سے ہدایت لیتے تھے۔ یہ آیت یاد آتے ہی اس نے زیرِ لب تسبیح کرنا شروع کر دی۔


پتوں کی سرسراہٹ، چڑیوں کی چہچہاہٹ اور غروب ہوتے ہوئے سورج سے سارا سماں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔

کائنات کی ہر چیز کو دیکھ کر اسے اپنا رب یاد آتا تھا اور وہ دل ہی دل میں اسکی بنائی ہر چھوٹی بڑی تخلیق کو سراہتی رہتی تھی۔


ابھی بھی وہاں کھڑے کھڑے وہ یہی کر رہی تھی۔ زرد ہوتے آسمان کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی، گویا آسمانوں کے پار کہیں کسی کو محسوس کر رہی ہو۔


اسے فاطمہ پر بہت پیار آرہا تھا۔ اسے ہمیشہ سے ان لوگوں سے بہت اپنائیت محسوس ہوتی تھی جو اپنے رب کی طرف پلٹ آتے ہیں۔ وہ اپنے رب سے محبت کرتی تھی، اس لیے اسے ہر اس انسان سے محبت تھی جو اسکے رب سے محبت کرتا تھا۔ فاطمہ بھی اس رستے پر قدم رکھ چکی تھی۔ اسکے دل سے فاطمہ کے لیے بہت دعائیں نکل رہی تھیں کہ اللہ اسکے دل کو اپنے لیے خاص کر دیں۔۔ اسے اپنی طرف کھینچ لائیں۔۔ اسے اپنے خاص بندوں میں شامل کرلیں۔


ابھی یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ دور پار سے اسے مغرب کی اذانیں سنائی دیں۔ وہ فوراً سے پلٹی تو اسے خیال آیا کہ اسکے ہاتھوں نے ابھی بھی قرآن کو بہت مضبوطی مگر محبت سے سینے سے لگایا ہوا تھا۔

وہ واپس رکھنے کے لیے الماری کی طرف بڑھ رہی تھی کہ

اس نے چلتے چلتے ایسے ہی قرآن کھولا۔

تو سامنے یہ آیت تھی۔


*"اور جب (وہ لوگ) اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو پیغمبر (محمدﷺ) پر نازل ہوئی تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی اور وہ (خدا کی جناب میں) عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ لے۔"*


(المائدہ: 83)


اسکی دھڑکن فوراً سے تیز ہو گئی۔ قدم وہیں جم گئے اور آنکھیں نم ہو گئیں۔

انھی پرنم آنکھوں سے مسکرا کر اس روشن آیت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگی۔۔ اوہ فاطمہ۔۔۔۔ تم کیا جانو تمھارا رب تمھارے ان بہتے آنسوؤں کی کتنی قدر کرنے والا ہے۔۔۔ ♡


۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔


✒ام ہریرہ

_سب دوست ایک بار درودشریف پڑھ لیں_

_ایک بار درودشریف پڑھنے سے_ 

_ﷲ تعالیٰ دس مرتبہ رحمت فرماتے ہیں_

Post a Comment

0 Comments