Moste Usfull Site

۔ماں! بھائی کب مرے گا؟

 ضرورپڑھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں! بھائی کب مرے گا؟  


 عرصہ ہوا ایک ترک افسانہ پڑھا تھا، یہ دراصل میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتل گھرانے کی کہانی تھی جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ جو جمع پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالجے پر لگ چکی تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگا ہوا تھا۔ آخر اسی حالت میں ایک دن بچوں کو یتیم کرگیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانامہ کھانے کا منتظر رہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے بار بار باہر نکل کر سامنے والے سفید مکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے، وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہو رہا ہے، جب بھی قدموں کی چاپ آتی انھیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آ رہا ہے مگر کسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی، ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اس نے گھر سے کچھ روٹی کے سوکھے ٹکڑے ڈھونڈھ نکالے، ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر کی "تلاش" کے بعد دو چار چیزیں نکل آئیں جنھیں کباڑیے کو فروخت کرکے دو چار وقت کے کھانے کا انتظام ہوگیا۔ جب یہ پیسے بھی ختم ہوگئے تو پھر جان کے لالے پڑگئے۔ بھوک سے نڈھال بچوں کا چہرہ ماں سے دیکھا نہ گیا۔ ساتویں روز بیوہ ماں برقع میں لپٹ کر محلے کی پرچون کی دکان پر جا کھڑی ہوئی، دکان دار دوسرے گاہکوں سے فارغ ہوکر اس کی طرف متوجہ ہوا، خاتون نےادھار پر کچھ راشن مانگا تو دکان دار نے نہ صرف صاف انکار کردیا بلکہ دو چار باتیں بھی سنا دیں۔ اسے خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑا۔ ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ، اوپر سے مسلسل فاقہ، آٹھ سالہ بیٹے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بخار میں مبتلا ہوکر چارپائی پر پڑگیا۔ دوا دارو کہاں سے ہو، کھانے کو لقمہ نہیں تھا، چاروں گھر کے ایک کونے میں دبکے پڑے تھے، ماں بخار سے آگ بنے بیٹے کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جب کہ پانچ سالہ بہنا اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاؤں دبا رہی تھی۔ اچانک وہ اٹھی، ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگا کر بولی: اماں بھائی کب مرے گا؟ 

ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا، تڑپ کر بیٹی کو سینے سے لپٹا لیا اور پوچھا: میری بچی، تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟

بچی معصومیت سے بولی: ہاں اماں! بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں! 


اگر ہم اپنے پاس پڑوس میں نظر دوڑائیں تو اس طرح کی ایک چھوڑ کئی کہانیاں بکھری نظر آئیں گی۔ بہت معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں ہمارا معاشرہ مردہ پرست ہوچکا ہے۔ زندگی میں کوئی نہی پوچھتا مگر دم نکلتے وقت ہونٹوں پر دیسی گھی لگادیا جاتا ہے تاکہ لوگ سمجھیں بڑے میاں دیسی گھی کھاتے کھاتے مرے ہیں

 احباب! دین اسلام نے جہاں نماز روزہ حج فرض کیا وہاں عزیز و اقارب، پڑوسیوں اور مساکین و غرباء سے صلہ رحمی کے تناظر میں زکوۃ کی بھی بےحد تلقین کی ہے۔ میں نے آج تک جتنا بهی پڑها انبیاء، ائمہ، اور اللہ والوں کے واقعات کو ان سب میں ایک بات مشترک نظر آئی کہ وہ لوگ مخلوق خدا سے بےحد محبت کرنے ان پر رحم و درگزرکرنے والے اور خود بهوکے رہ کر ان مساکین، یتیم اور غربا کو کهلانے والے تهے، مخلوق سے اس قدر محبت ہی نے انہیں اللہ سبحانہ تعالی کے مقرب بندوں میں شامل کروا دیا تها، اللہ سبحانہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بهی دوسروں کے کام آنے کی توفیق عطا فرمائے، اور تمام پریشان حالوں کی پریشانیوں کو دور فرمائیں۔


_سب دوست ایک بار درودشریف پڑھ لیں_

_ایک بار درودشریف پڑھنے سے_ 

_ﷲ تعالیٰ دس مرتبہ رحمت فرماتے ہیں_

*┅┄┈•※ ͜✤۝✤͜※┅┄┈•۔*

                *┊ ┊ ┊ ┊ ۔*

                *┊ ┊ ┊ ☽۔*

                *┊ ┊ ☆۔*

                *☆ ☆۔*

Post a Comment

0 Comments