کیا فرماتے ہیں علما کرام ومفتیان عظام اس مسلہ کے بارے میں ۔۔۔
کہ ایک شخص نے اپنی مملوکہ زمین میں سے ایک جگہ کو یہ کہ کر مقبرہ کے لے مختص کیا ہوا ہے کہ اہل محلہ میں سے جو کوٸی فوت ہو جاے تو اس میں دفن کریں ابھی تک کوٸی فوت نہیں ہوا تھا کہ اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں اسی مختص زمین پر گھر بناونگا اور اس کے متبادل دوسری جگہ قبرستان کے لے مختص کرتا ہوں
تو کیا شریعت میں اس طرح جاٸز ہے
جواب تحریر فرما کر ثواب دارین حاصل کریں
جزاك اللهُ
*الجواب حامداً ومصلیا*
واضح رہے کہ وقف تام ہونے کے بعد وقف شدہ زمین سے جب تک فائدہ اٹھانا ممکن ہو کسی دوسری زمین سے اس کا استبدال جائز نہیں ، اور وقف تام ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ موقوفہ چیز جس مقصد کے لیے وقف کی گئی ہو ، اس میں کم از کم ایک مرتبہ استعمال ہوجائے یا وقف کرنے کے بعد متولی اور ذمہ داران حضرات کے حوالے کیا جائے،چنانچہ قبرستان کے لیے وقف کی گئی زمین کا وقف اس وقت تام متصور ہوگا جب اس میں مردوں کا دفن ہوناشروع ہوجائے۔
لھذا صورتِ مسئولہ میں اگر مقبرے کیلئے مختص کی گئی زمین مملوک ہو یا وقف ہو مگر متولی اور ذمہ داران کے سپرد نہ کی گئی ہو یا اس میں ابھی تک کسی مردے کو دفنایا نہ گیا ہو،ان تمام صورتوں میں یامملوک ہونے کی وجہ سے یا وقف تام نہ ہونے کی وجہ سے، اس زمین کا دوسری زمین سے تبادلہ کرنا جائز ہے۔
فی الدرالمختار (546/6)
(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى ) بالفعل و ( بقوله جعلته مسجدا ) عند الثاني ( وشرط محمد ) والإمام ( الصلاة فيه )۔۔۔۔ لأنه لا بد من التسليم عندهما خلافا لأبي يوسف وتسليم كل شيء بحبسه ففي المقبرة بدفن واحد وفي السقاية بشربه وفي الخان بنزوله كما في الإسعاف واشتراط الجماعة لأنها المقصودة من المسجد۔فقط والله أعلم بالصواب
1 Comments